Allama Iqbal Poetry in Urdu
Allama Iqbal Poetry in Urdu Iqbal was a renowned poet, philosopher and political leader of Pakistan, whose poetry awakened the consciousness of Muslims. In Iqbal’s poetry, the themes of self, independence, luxury and cultural revival are prominent. In his poems, he encouraged the youth to acknowledge their position and abilities, such as “Raise yourself so much that before every destiny, God asks the servant himself, tell him, what is your will.”
Love is also expressed in Iqbal’s poetry, which inspires him to seek his destiny. His poems “Shakwah” and “Jawb Shakwah” question Allah about human destiny, presenting the plight of Muslims and their history.
His collection of poetry touches the depths of the human spirit and conveys a message of self-confidence and determination. Iqbal’s vision inspired the youth, and his poetry continues to be a beacon for the Nation of Islam. His speech occupies a prominent place in Urdu literature and touches the hearts of readers even today. Allama Iqbal Poetry in urdu | allama iqbal poetry in urdu language | best of allama iqbal poetry in urdu
ستاروں سے آگے جہاں اور بھی ہیں
ابھی عشق کے امتحان اور بھی ہیں
خودی کو کر بلند اتنا کہ ہر تقدیر سے پہلے خدا
بندے سے خود پوچھے بتا تیری رضا کیا ہے
عمل سے زندگی بنتی ہے جنت بھی جہنم بھی یہ
خاکی اپنی فطرت میں نہ نوری ہے نہ ناری ہے
پرواز ہے دونوں کی اسی ایک فضا میں
کرگس کا جہاں اور ہے شاہین کا جہاں اور
محبت مجھے ان جوانوں سے ہے
ستاروں پہ جو ڈالتے ہیں کمند
زمانے کے انداز بدلے گئے
نیا راگ ہے ساز بدلے گئے
سکوں محال ہے قدرت کے کارخانے
میں ثبات ایک تغیر کو ہے زمانے میں
ہزاروں سال نرگس اپنی بے نوری پہ روتی ہے
بڑی مشکل سے ہوتا ہے چمن میں دیدہ ور پیدا
عقابی روح جب بیدار ہوتی ہے جوانوں میں
نظر آتی ہے ان کو اپنی منزل آسمانوں میں
یہ غازی یہ تیرے پُر اسرار بندے
جنہیں تو نے بخشا ہے ذوق خدائی
جہاں میں اہل ایماں صورت خورشید جیتے ہیں
ادھر ڈوبے ادھر نکلے ادھر ڈوبے ادھر نکلے
نہ ہو نومید نومیدی زوال علم و عرفاں ہے
امید مرد مومن ہے خدا کے رازدانوں میں
ستاروں پہ جو ڈالتے ہیں کمند جوانوں
کو سیراب کر دے وہ خون جگر کیا
خدایا آرزو میری یہی ہے میرا
نور بصیرت عام کر دے
اندھیری رات میں خورشید کا منظر نہ پوچھو
چمک اُٹھا کوئی امید کا تارا نہ پوچھو
دیا اقبال نے ہندی مسلمانوں کو سوز اپنا یہ
اک مرد تن آساں تھا تن آسانی کا شیدائی
زمانہ دیکھے گا جب تمہیں اپنے عمل میں پختہ
ہوگا وہی شاہین جو خودی میں ڈوبا ہوگا
ستاروں سے کہیں دور زمینوں پہ نیا چاند
ہماری خاک سے پیدا ہمارا ہی جہاں ہوگا
خودی وہ بحر ہے جس کا کوئی کنارہ نہیں
تو آبروئے خودی کر کہ یہ سہارا نہیں
عشق دماغ تو بنتا ہے آگ بھی مگر ساتھ
میں وہ دل کو جلا کر راکھ کرتا ہے
وہ دانا کہ جسے آتی ہو ہر بات وہی تو دل کی
گہرائیوں میں اُترنے کا ہنر جانتا ہے
دل بیدار پیدا کر کہ دل خوابیدہ ہے جب تک
نہ ہو انقلاب دل میں کوئی انقلاب نہیں
خدا نے آج تک اس قوم کی حالت نہیں بدلی نہ
ہو جس کو خیال آپ اپنی حالت کے بدلنے کا
محنت کی ہے ہم نے ستاروں پہ کمند ڈالی ہے
علم کی دنیا میں وہی شاہین جوانوں کا سفر ہے
اقبال کا ترانہ ہے محبت وطن کا شاہینوں کو
پروں میں ہے وہ طاقت جو اڑان دیتی ہے
خودی کو جب فنا کرنا سیکھو گے تب ہی
تمہیں خدا کی راہوں پر چلنے کا ہنر ملے گا
میں ہوں مست بلبل در باغِ خودی کا
خالق مجھے بلاتا ہے شاہینوں کی صف میں
جوش کردار سے بنتی ہے زندگی جنت بھی جہنم
بھی تقدیر کے لکھنے والے بھی کردار سے بنتے ہیں
بلند ہو جذبہ خودی کا انسان تو آسمان چھو لے
سرفراز ہو وہ قوم جو اپنی حالت خود بنائے
ہزاروں سالوں کے بعد اقبال کا شعر
اب بھی جوانوں کو عمل کی راہ دکھاتا ہے
[…] Allama Iqbal Poetry in Urdu […]